معنی اور تلاوت کے اعتبار سے تقسیم:
سوم
معنی اور تلاوت کے اعتبار سے تقسیم: معنوی اعتبار سے قرآن ،آیات اور سورتوں پر مشتمل ہے۔اور تلاوت کے اعتبار سے اسے کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے مثلًااحزاب ،رکوع،سیپارے،اخماس،اعشار وغیرہ۔ یہ تقسیم ایسی خصوصیت ہے جس میں دنیا کی کوئی اور کتاب اس کے ہم پلہ نہیں۔جاحظ کا کہنا ہے: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کا ایسا نام رکھا ہے جو عربوں کے کلام سے مختلف ہے۔اپنے سارے کلام کو اس نے قرآن کہا جیسے انہوں نے دیوان کہا۔اس کی سورتیں قصیدہ کی مانند ہیں اور آیت بیت کی طرح اور اس کا آخر قافیہ سے ملتا جلتا ہے۔
قرآن پاک کی اکائی آیت ہے۔ جس کا مطلب ہے نشانی۔ آیتوں سے مل کر سورتیں بنتی ہیں۔ سورت کے معنی فصیل (Boundry Wall) کے ہیں۔ آیتوں اور سورتوں کی ترتیب اورتقسیم کے بارے میں دو آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے کے مطابق یہ ترتیب و تقسیم توقیفی ہے اور دوسری رائے یہ ہے کہ یہ ترتیب اجتہادی ہے۔ ان میں سے پہلی رائے زیادہ درست اور قابل اعتماد ہے اور اس کے دلائل بھی زیادہ قوی ہیںجو درج ذیل ہیں۔
l وہ احادیث جو سورتوں کے فضائل سے متعلق ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سورتیں عہد نبوی ﷺ میں مرتب ہو چکی تھیں۔ مثلًا ارشاد نبویﷺ ہے کہ ’’جو سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات رات کو پڑھ لے وہ اس کے لئے کافی ہیں۔‘‘ (سنن ترمذی: ۲۸۸۱، حسن، صحیح)
l وہ احادیث جو کتابت قرآن سے متعلق ہیں وہ بھی آیات و سورتوں کی ترتیب توقیفی کی دلیل ہیں۔ مثلًا سیدنا عثمان ؓ فرماتے ہیں: آپﷺ وحی نازل ہونے کے بعد کاتبین وحی کو بلواتے اور فرماتے کہ ان آیتوں کو اس سورت میں اس جگہ پر رکھو جہاں اِن باتوں کا ذکر ہے۔(سنن ترمذی)
l احادیث میں اگر کہیں سورتوں کی تلاوت کا غیر مرتب ذکر ہے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ سورتوں کی تلاوت میں ترتیب واجب نہیں بلکہ آگے پیچھے کی جا سکتی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہوسکتا کہ سورتوں کی ترتیب اجتہادی ہے۔ ان دلائل کے علاوہ ایک عقلی دلیل یہ ہے کہ موجودہ ترتیب میں لفظ حم ایسی سورتوں کے شروع میں ہے جو یکے بعد دیگرے آتی ہیں۔لیکن ’’مسبحات‘‘(سبح سے شروع ہونے والی سورتیں)میں ایسی ترتیب نہیں ہے بلکہ یہ سورتیں الگ الگ مقامات پر آتی ہیں۔ اگر ترتیب آیات و سور اجتہادی ہوتیں تو حمکی طرح ’’مسبحات‘‘ کو بھی ایک دوسرے کے بعدجمع کر دیا جاتا۔
l علامہ سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے قرآن کو بین دفتین ( دو گتوں کے درمیان) عہد صدیقی میں جمع کیا۔ اس میں کسی قسم کی زیادتی یا کمی نہیں کی ۔ اس کو بالکل ویسا ہی لکھا جیسا انہوں نے نبی اکرمﷺ سے سنا یعنی ترتیب میں بھی کسی قسم کی تقدیم و تاخیر نہیں کی۔ ان کے بعد تابعین نے بھی اس ترتیب کو یاد کیا، لکھا اورنسلًا بعد نسل آج بھی اسی طرح ہمارے پاس محفوظ ہے۔(الاتقان:۷۱)
l یہ ترتیب حفظ قرآن کے لئے آسان اور شوق دلانے والی ہے۔ ہر سورت کا ایک موضوع ہے اور مقاصد ہیں۔ لمبی سورت ہونا اس کے معجزانہ ہونے کی شرط نہیں۔ سورۃ الکوثر بھی تو معجز ہے۔
احزاب یا منازل :
احزاب یا منازل : صحابہؓ کا معمول تھا کہ تہجدمیں قرآن کی تلاوت کیا کرتے اور ہفتہ میں ایک بارقرآن ختم کیا کرتے ۔ اس مقصد کے لئے ان کی روزمرہ تلاوت کی ایک مقدار مقرر تھی۔ جسے’’حزب ‘‘یا ’’منزل‘‘کہا جاتا تھا۔ احادیث سے ثابت ہے کہ قرآن پاک میں احزاب کی تقسیم خود نبی اکرم ﷺ نے کی تھی۔(تاریخ القرآن از پروفیسر عبد الصمدؒ صارم: ۱۰۳) سیدنا اوس بن حذیفہ ؓ فرماتے ہیں: میں نے صحابہؓ سے پوچھا کہ آپ نے قرآن کے کتنے حزب بنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ایک حزب تین سورتوں کا، دوسرا پانچ کا، تیسرا سات کا ، چوتھا نو کا، پانچواں گیارہ کا ، چھٹا تیرہ کا ، اور آخری حزب مفصل سورہ ق سے لے کر آخر تک کا۔(البرہان ۱؍۲۳۷) زرکشیؒ لکھتے ہیں اگر ہم ۳، ۵، ۷، ۹، ۱۱، ۱۳ کو جمع کریں تو کل ۴۸ بنتے ہیں۔ اور اڑتالیس سورتوں کے بعد سورہ ق شروع ہوتی ہے۔ امام ابن حجرؒ فرماتے ہیں: اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن پاک کی سورتوں کی ترتیب عہد نبوی میں بھی وہی تھی جو آج ہے۔(فتح الباری ۹؍۴۲)
نیز یہی تقسیم سیدناعثمان ذو النورینؓ کے مصحف میں ان کی ہفتہ وار تلاوت کے نشانات سے بھی ملتی ہے۔ جناب ذوالنورین رضی اللہ عنہ ہفتہ میں ایک بار سارے قرآن مجید کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ان سات احزاب کی تقسیم اس طرح کی تھی۔
پہلی منزل سورہ الفاتحہ سے سورہ النساء تک
دوسری منزل سورہ المائدہ سے سورہ التوبہ تک
تیسری منزل سورہ یونس سے سورہ النحل تک
چوتھی منزل سورہ بنواسرائیل سے سورہ الفرقان تک
پانچویں منزل سورہ الشعرآء سے سورہ یٰسٓ تک
چھٹی منزل سورہ الصٰافآت سے سورہ الحجرات تک
ساتویں منزل سورہ ق سے سورہ الناس تک
اخماس اور اعشار:
اخماس اور اعشار: ابتداء میں قرآن میں اخماس اور اعشار کی علامات بھی لگائی جاتیں۔ اخماس سے مراد یہ تھی کہ ہر پانچ آیات کے بعد حاشیہ پر لفظ ’’خماس‘‘یا ’’خ‘‘لکھ دیتے تھے جبکہ ہر دس آیتوں کے بعد ’’عشر‘‘یا ’’ع‘‘لکھ دیتے تھے۔ جو رمز (Abbreviation) تھے۔(مناہل العرفان ۱؍۳ ۴۰) ایک قول کے مطابق حجاج بن یوسف ان کا اولین موجد ہے جبکہ دوسرا قول یہ ہے کہ خلیفہ مامون ان کا موجدتھا۔(البرہان ۱؍۲۵۱) ایک اور قول یہ ہے کہ صحابہؓ کے دور میں ان علامات کا وجود ملتا ہے۔مثلاً مسروق ؒ کہتے ہیں ’’ عبد اللہؓ بن مسعود مصحف میں اعشار کے نشان کو مکروہ سمجھتے تھے۔‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ۲؍۲۱۱) جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے موجد صحابہ رسول تھے۔اب یہ سب علامات عنقا ہوگئی ہیں۔
سورت:
سورت: اسے عربی میں تاء مربوطہ کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ جس کی جمع سُوَر آتی ہے۔ اس لفظ کو دو حیثیتوں سے بولا جاتا ہے:
۱۔ السُّؤْرَۃ: ہمزہ کے ساتھ۔ جو أَسْأَرَ سے مشتق ہے۔ جس کا معنی ہے: أَبْقٰی۔ باقی رہنے والا۔ السُّؤْرُ: باقی ماندہ۔ پانی جو پی کر برتن یا گلاس میں چھوڑ دیا جائے۔ اسے یہ نام اس لئے دیا گیا ہے گویا کہ سؤرۃ بھی سارے قرآن کا بقیہ حصہ ہے اور اس کا ایک ٹکڑا ہے۔
۲۔ السُّوْرَۃ: بغیر ہمزہ کے۔اس کا معنی مقام ومرتبہ ہے یا لمبی و خوبصورت عمارت ہو جو ایک علامت ہو۔ اس اعتبار سے سورت نام پھر اس لئے ہے کہ یہ اپنے مرتبے اور مقام کے اعتبار سے اس سچائی کی علامت ہے جو اس میں بیان کی گئی ہے۔اور ایک دلیل بھی ہے کہ یہ سارا قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کا کلام ہے۔قلعے کی اونچٖی دیوار کو سُوْر کہتے ہیں۔ دو وجہ سے لفظ سورت اس لفظ کے مشابہ ہے:
۱۔ دیوار اونچی محسوس ہوتی ہے۔ سورت اپنے معنی ومفہوم کے اعتبار سے بھی بلند وبالا محسوس ہوتی ہے۔
۲۔دیوار کی اٹھان ایک دوسرے پر رکھی گئی اینٹوں پر ہوتی ہے۔ آیات جویکے بعد دیگرے آتی ہیں سورت کی اٹھان بھی ان پر ہوتی ہے۔
علماء قرآن کے نزدیک سورت قرآن کریم کی آیات کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جس کا ایک مطلع یعنی آغاز ہوتا ہے اور اس کا ایک مقطع یعنی اختتام ہوتا ہے۔یہ سب ایک سو چودہ سورتیںہیں جس کا آغاز الفاتحہ سے اور اختتام الناس سے ہوتا ہے۔اکثر سورتیں ایسی ہیں جن کا ایک ہی نام ہے جیسے النسائ، الاعراف، الأنعام، مریم وغیرہ۔ مگر کچھ ایسی بھی ہیں جن کے متعدد نام ہیں۔ان میں کسی کے دو نام ہیں: جیسے: محمد، اس کا ایک نام القتال بھی ہے۔ اور الجاثیۃ اس کا دوسرا نام الشریعہ بھی ہے۔ سورۃ النحل کا دوسرا نام النِّعَم ہے اس لئے کہ اس میں متعدد نعمتوں کا ذکر ہے۔
اسی طرح سورہ المائدۃ کے دو اور نام ہیں: العُقُود، اورالمُنْقِذَۃ، سورۃ غافر کے بھی اسی طرح دو اور نام ہیں: الطَّوْل اور المُؤمِن۔
بعض سورتیں ایسی ہیں جن کے تین سے زیادہ نام ہیں: مثلاً: سورۃ التوبۃ کے یہ نام بھی ہیں: بَرَاءَۃ، الفاضِحَۃ اور الحَافِرَۃ، سیدنا حذیفہ فرماتے ہیں یہ سورۃ العذاب ہے۔ ابن عمرؓ فرمایا کرتے: ہم اسے المُشَقْشِقَۃ کہا کرتے۔ اور الحارث بن یزید کہتے ہیں: اسے المُبَعْثَرَۃ ، المُسَوَّرۃ اور البَحُوث بھی کہا جاتا۔(البرہان ۱؍۵۲۱) اسی طرح سورۃ فاتحہ کے امام سیوطی ؒنے پچیس نام لکھے ہیں۔
کچھ سورتوں کا ایک ہی نام ہے: جیسے البقرۃ اور آل عمران کو الزہراوَین کہا جاتا ہے۔ اور الفلق اور الناس کو المُعَوَّذَتَیْن اور وہ پانچ سورتیں جن کا آغاز حٰم سے ہوتا ہے انہیں آل حامیم یا حوامیم کہتے ہیں۔
آیت: عربی زبان میں لفظ آیت کے متعدد معانی ہیں۔معجزہ، علامت اور عبرت کے معنی میں بھی آیت کا لفظ قرآن کریم میں مستعمل ہوا ہے۔برہان اور دلیل کے معنی بھی یہ لفظ دیتا ہے۔ اسی طرح لفظ آیت حیران کن معاملے کے لئے بھی ہے جیسے: فُلانٌ آیَۃٌ فِی الْعِلْمِ وَفِی الْجَمَالِ۔ فلان شخص علم میں یا جمال میں ایک آیت ہے مراد یہ کہ اس کا علم یا جمال حیران کن ہے۔ اسی طرح لفظ آیت: جماعت کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے۔ جیسے عرب کہا کرتے ہیں: خَرَجَ الْقَوْمُ بِآیَتِہِمْ۔ لوگ اپنی آیت یعنی جماعت سمیت نکل آئے۔
اصطلاح میں الفاظ وحروف کا وہ مجموعہ جس کا مطلع یعنی آغاز اور مقطع یعنی اختتام قرآن کریم کی کسی سورت میں درج ہو۔یعنی قرآن کریم کی سورت کا ایک ایسا ٹکڑا ہے جس کا اپنا آغاز ہے اور اپنی انتہاء بھی۔اور ہر آیت، اگلی وپچھلی آیت سے گہرا تعلق بھی رکھتی ہے۔قرآن مجید میں کل چھ ہزار دو سو آیات ہیں ۔ علماء کا ان کی تعداد میں اختلاف وقف کا ہے یعنی محض دو آیتوں کو ایک سمجھنے یا ہر آیت کو الگ الگ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔آیات قرآنیہ کی ترتیب توقیفی ہے۔جبریل امین نے جس طرح آپ ﷺ کے قلب اطہر پر اتاریں اسی ترتیب سے آپ ﷺ نے انہیں اپنی نمازوں اور خطبوں میں پڑھا۔یہی ترتیب ملحوظ رکھنا فرض ہے۔ آیت کی ابتداء اور انتہاء کے بارے میں آگاہی بھی آپ ﷺ ہی نے دی ہے۔مثلًا سورہ فاتحہ کو آپ نے سبع مثانی فرمایا۔ سورہ بقرہ کی آخری دو آیتوں کی تحدید بھی آپ نے فرمائی چنانچہ آپ نے فرمایا: مَنْ قَرَأَ بِالْآیَتَیْنِ مِنْ آخِرِسُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ فِیْ لَیْلَۃٍ کَفَتَاہُ۔ جس نے رات کو سورہ بقرہ کی آخری دو آیتوں کی تلاوت کی وہ اسے کافی ہوں گی۔ (متفق علیہ)اوریہ بھی فرمایا: تَکْفِیْکَ آیَۃُ الصَّیْفِ الَّتِیْ فِیْ آخِرِ سُوْرَۃِ النِّسَائِ۔ تمہیں آیت صیف ہی کا فی ہوگی جو سورہ نساء کے آخر میں ہے۔(مسند احمد۱؍۲۶) اسی طرح بعض علماء نے ہرسورہ کے شروع میں حروف مقطعات کو بھی آیت شمار کیا ہے۔ سوائے حم عسق کے اسے کوفی علماء نے دو آیتیں قرار دیا ہے اور طس، یس، الر اور المر کو بھی آیت شمار کیا ہے مگر صرف ایک حرف یعنی ق، ن، ص کو آیت شمار نہیں کیا۔ علماء کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ ہر آیت پر وقف سنت ہے جس کی اتباع ضروری ہے۔ آیات کے اعتبار سے قرآن کریم کی عین درمیانی آیت سورۃ الشعراء کی آیت نمبر ۴۵ ہے جو {یأفکون}پر ختم ہوتی ہے۔ کلمات کے اعتبار سے نصف سورہ الحج کی آیت نمبر ۲۰ میں {والجلود} اور اس کے بعد باقی نصف آخر تک۔ حروف کے اعتبار سے سورہ الکہف میں لفظ {نکراً} میں نون اور اس کا کاف اگلے نصف ثانی کے لئے شروع ہوتا ہے۔یہ بھی ایک رائے ہے کہ {تستطیع}کی عین نصف ہے اور دوسری یہ بھی {ولیتلطف} میں دوسری لام بھی عین نصف ہے۔اسی طرح آیت دلیل، برہان اور معجزہ کو بھی کہتے ہیں اس لئے اس میں حیران کن احکام، عقائد اور تنبیہ ودروس ہوتے ہیں۔ اور اپنی بلاغت وفصاحت میں بھی منفرد ہوتی ہے۔
رکوع
رکوع: رکوع کی علامت ’’ع‘‘ ہے جو حاشیہ پر لکھی جاتی ہے۔ رکوع کی علامت کا آغاز دور صحابہؓ کے بعد ہوا۔ایک رائے کے مطابق یہ تقسیم حجاج بن یوسف نے کی۔ یہ علامت اس جگہ لگائی گئی جہاں سلسلہ کلام ختم ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ معنی کو بھی مدنظر رکھاگیا۔ لہٰذایہ تقسیم بہت حد تک صحیح ہے۔ اس علامت کا مقصد آیات کی ایسی مقدار کا تعین تھا جو نماز کی ایک رکعت میں پڑھی جاسکے۔ اسی لئے اس کو رکوع کانام دیا گیا کہ وہ مقام جہاں نماز میں قراء ت ختم کر کے رکوع کیا جائے۔اس کا تعلق نماز تراویح سے نہ تھا بلکہ بعد میں یہ بات مشایخ کے اپنے اجتہاد و فعل کی طرف منسوب کی گئی۔ فتاوٰی عالمگیریہ میں یہ تحریر ملتی ہے : مشایخ احناف نے قرآن کو پانچ سو چالیس رکوع میں تقسیم کیا ہے اور مصاحف میں اس کی علامات بنادی ہیں تاکہ تراویح میں ستائیسویں شب کو قرآن ختم ہو سکے۔ (فتاویٰ عالم گیری : فصل التراویح: ۹۴) بعدمیں بعض خوش نویسوں نے طویل رکوعوں کی مزید تقسیم کر دی اور ۵۴۰ کی بجائے ۵۵۸ رکوع کے نشان بنا دیے اور طلبہ کی آسانی کے لئے پاک وہند میں شائع ہونے والے قرآن کریم میں ہر رکوع پر مخصوص نمبر لگادئے۔ ع، رکوع کا مخفف ہے اس کے اوپر لکھے ہوئے عدد کا مطلب ہے کہ یہ اس سورہ کا رکوع نمبرہے اور درمیان میں لکھے گئے عدد سے مراد اس رکوع کی کل آیات ہیں اور سب سے نیچے لکھے ہوئے عدد سے مراد اس پارے کے رکوع کا نمبر ہے۔
سپارے
سپارے: قرآن کی ایک اور تقسیم پاروں کے اعتبار سے بھی کی گئی۔ یہ تقسیم کس نے کی، نام متعین نہیں ہوسکا۔ لیکن یہ تقسیم ایسی عجیب سی ہے جس میں معنی او رسلسلہ کلام کا خیال نہیں رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات پارہ بالکل ادھوری بات پر ختم ہو جاتا ہے۔اس لئے یہ تقسیم پسند نہیں کی گئی۔ ایک رائے کے مطابق یہ تقسیم بچوں کو قرآن پڑھانے میں آسانی کے لئے کی گئی۔ علامہ بدرالدین زرکشیؒ کا کہنا ہے: قرآن پاک کے تیس پارے جو مشہور چلے آرہے ہیں مدارس کے نسخوں میں انہی کارواج ہے۔(البرہان ۱؍۲۵۰) جبکہ ایک اور رائے کے مطابق یہ تقسیم اس لئے کی گئی کہ قرآن، مہینہ میں ختم کیا جا سکے۔ اس رائے کی بنیاد ایک حدیث پر ہے کہ نبی ﷺ نے سیدناعبداللہ بن عمرؓ وسے فرمایا:
“قرآن ایک مہینے میں ختم کیا کر و اور جب انہوں نے عرض کیا کہ میں تو اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں تو فرمایا کہ اچھا تو پھر ایک ہفتہ میں قرآن ختم کیا کرو”۔
بہر حال یہ تقسیم بھی تعداد میں آیتوں کی گنتی کر کے بنائی گئی ہے جو غیر منطقی ہے اس میں پھرمناسب تبدیلی کی گئی۔ ہر پارہ کو تقریباً دوبرابر حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اور پھر چار حصوںمیں -جو ربع اور نصف سے معروف ہیں۔ مجمع الملک فہد سے شائع ہونے والے قرآن مجید میں یہی ترتیب سیپارہ بہتر کردی گئی ہے ۔ ہر آدھے پارے کو حزب قرار دیا گیا ہے۔ ابتداء سے انتہاء قرآن کریم تک ان احزاب کو مسلسل اور ترتیب وار شمار کیا گیا ہے اور پھر ہر حزب کو چار حصوں میں تقسیم کرکے آسانی کردی گئی ہے۔
طباعت قرآن:
طباعت قرآن: ابتداء میں جب تک پریس ایجاد نہ ہوا تھا۔ قرآن کریم کے تمام نسخے قلم سے لکھے جاتے تھے۔ پریس ایجاد ہونے کے بعد سب سے پہلے سن ۱۵۳۰ء میں اٹلی کے شہر’’البندقیة‘‘ میںقرآن طبع ہو امگر کلیسا اسے برداشت نہ کر سکا اور اسے ضائع کرنے کا حکم دیا۔ پھر ۱۶۹۷ء اور۱۶۹۸ء میں جرمنی اور اٹلی کے مستشرقین نے قرآن چھپوائے لیکن انہیں مقبولیت حاصل نہ ہو سکی۔ صحیح مصدقہ قرآنی طباعت سب سے پہلے مولائی عثمان نے روس کے شہر سینٹ پٹیرس برگ میں ۱۷۸۷ء میں کی۔ اسی طرح قازان میں بھی قرآن کو طبع کیا گیا۔ ۱۸۲۸ ء میں ایران کے شہر تہران میں پتھر پر قرآن چھاپا گیا۔ اس کے بعد ہندوستان میں کئی بار قرآن مجید شائع ہوا۔ ۱۸۷۷ء میں ترکی کے شہر آستانہ (استنبول) میں طباعت قرآن ہوئی۔ ۱۹۲۳ء میں شیخ الازہر کی زیر سرپرستی قرآن کا ایک حسین و جمیل نسخہ شائع کیا گیا۔ جسے تمام اسلامی دنیا میں بہت شہر ت او رقبولیت حاصل ہوئی۔ اور لاکھوں نسخے ہر سال شائع کر کے اطراف عالم میں بھیجے جاتے رہے۔ مشرق و مغرب کے تمام علماء اس بات پر متفق تھے کہ اس نسخے کی طباعت و کتابت ہر لحاظ سے مکمل اور معیاری ہے۔
مصحف مرتل:
مصحف مرتل: قرآن کریم کو ترتیل سے تلاوت کرکے ریکارڈنگ کرنے کا یہ منصوبہ ،استاذ لبیب سعید کی سربراہی میں ۱۴؍ رمضان ۱۳۷۹ھ کو قاہرہ میں پہلے اجلاس میں طے ہوا۔تاکہ لوگوں کو قراءت قرآن کے صحیح نطق کی تعلیم ہو اور صحیح تلفظ کان میں پڑے۔اور شاذ قرائتوں سے چھٹکارا ملے۔ چنانچہ محرم ۱۳۸۱ھ میں شیخ محمود الحصری کی آواز میںقرآن کریم کی قراءت بروایت حفص عن عاصم مکمل ہوئی اور ۱۳۸۲ ھ میں ابوعمرو کی قراءت بروایت دوری مکمل ہوئی۔چند دیگرقراء حضرات کی مختلف روایتوں سے بھی ریکارڈنگ ہوئی تھی مگر یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچے بغیر توقف کا شکار ہوگیا۔اس ریکارڈنگ کو مصحف مرتل کہتے ہیں۔
مصاحف مرتلہ ترتیل صحیح کی ایک ممتاز صوتی صورت ہے اس لئے جہاں معلم قرآن نہ ہو یا علاقے دور دراز کے ہوں وہاں تحفیظ قرآن کریم کے لئے اور اس کی تعلیم کے لئے یہ ریکارڈنگ بہت ہی مفید ہے۔ہمارے دور میں سعودی عرب میں مدینہ منورہ کا مجمع الملک فہد صفر سن ۱۴۰۵ھ سے طباعت قرآن کا ایک تاریخی کردار اد ا کررہا ہے۔ تیس ملین قرآنی نسخوں کی سالانہ خوبصورت طباعت، عمدہ کاغذ وتجلید او رپھر دنیا بھر کی زبانوں میں اس کے تراجم نیز قراء حضرات کی مرتل ریکارڈنگ او ر مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ پھراس کی مفت تقسیم واقعی ایک قابل قدر کارنامہ ہے جو دنیائے اسلام میں اور پوری دنیا میں اللہ کے اس پیغام کو عام کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ یہ سب قرآن مجید کی حفاظت کے الٰہی سامان ہیں جو تاابد رکھنے کے کئے جارہے ہیں۔
متفقہ رائے:
متفقہ رائے: ہر دور کے علماء کی یہ متفقہ رائے رہی ہے کہ مرتب مصحف کے مطابق ہی تلاوت ہونی چاہئے یعنی ایک آیت کے بعد دوسری آیت یا ایک سورت کے بعد دوسری سورت تلاوت کرنی چاہئے۔یادبھی اسی طرح کیا جاتا ہے۔نیز کتابت بھی اسی ترتیب سے ہونی چاہئے۔ مستقبل کی ضروریات مد نظر رکھتے ہوئے قرآن مجید کی توقیفی ترتیب تین اقسام میں مقررکی گئی۔
۱۔ ہر آیت کا ہر کلمہ تقدیم وتاخیر کے بغیر اپنے مقام پر ہو۔ اسی نص پر اجماع ہے۔ کوئی ایسا عالم یا گروہ نہیں جو للہ الحمد رب العالمین پڑھتا ہو بلکہ سبھی{اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ } پڑھنے کے ہی قائل ہیں۔
۲۔ آیت کی ایسی ترتیب کہ ہر آیت سورۃ میں اپنے ہی مقام پر ہو۔ یہ بھی نص اور اجماع سے ثابت ہے راجح قول یہی ہے کہ ایسا کرنا واجب ہے۔ اس سے اختلاف کرنا حرام ہیں ایسی تلاوت بھی غلط ہوگی:{الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۲ۙ مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ۳ۭ} کی بجائے مالک یوم الدین الرحمن الرحیم پڑھا جائے۔
عبد اللہ بن زبیرؓ نے امیر المومنین عثمان ؓسے عرض کی کہ آیت {وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًاج صلے وَّصِیَّۃً لِّاَزْوَاجِہِمْ مَّتَاعًا اِلَی الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍج }کو اس آیت نے منسوخ کیا ہے {وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ} اور یہ آیت وصیت والی آیت سے تلاوت میں پہلے ہے تو آپ اسے بعد میں کیوں لکھ رہے ہیں؟ سیدنا عثمانؓ نے فرمایا: میرے بھتیجے! میں اس قرآن کی کسی آیت کو اس کی جگہ سے بدل نہیں سکتا۔
(صحیح بخاری : ۴۵۳۰)
اسی طرح مسند احمد(حدیث نمبر۳۹۹) ، سنن ابی داؤد(۷۸۶)، سنن نسائی(۸۰۰۷) وسنن ترمذی(۳۰۸۶) میںسیدناعثمان ؓ سے ایک روایت ہے کہ جناب رسالت مآب ﷺ پرجب مختلف سورتیں نازل ہوتیں تو آپ ﷺ نزول کے بعد کسی کاتب کو بلوا بھیجتے پھر آپ ﷺ اسے فرماتے کہ ضَعُوْا ہٰذِہِ الْآیاتِ فِی السُّورَۃِ الَّتِیْ یُذْکَرُ فِیْہَا کَذَا وَکذَا۔ ان آیات کو اس سورۃ میں وہاں رکھو جس میں یہ یہ بات ذکر کی گئی ہے۔
۳۔ قراء ت میںسورتوں کی ایسی ترتیب کہ مصحف میں ہر سورۃ اپنے مقام پر ہو۔ غالب اجتہاد یہی ہے ۔ بعض علماء کی رائے یہ بھی ہے کہ قراء ت یا کتابت میں یہ ترتیب واجب نہیں۔ ان کا استدلال سیدنا حذیفہ بن یمان ؓ کی ( صحیح مسلم: ۷۷۲)روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک رات نماز پڑھی۔ آپ ﷺ نے سورۃ البقرۃ تلاوت فرمائی ، پھر سورۃ النساء، اور پھر آل عمران۔ نیز امام بخاریؒ احنف سے تعلیقاً بیان فرماتے ہیں:
انہوں نے پہلی رکعت میں سورۃ کہف پڑھی، اور دوسری میں سورہ یوسف یا یونس اور پھر بیان کیا کہ انہوں نے سیدنا عمر ؓبن خطا ب کے ساتھ انہی دو سورتوں کے ساتھ نماز فجر پڑھی تھی۔( باب الجمع بین السورتین فی الرکعۃ)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں: ایک سورۃ کو دوسری سورۃ کے آگے پیچھے پڑھا جا سکتا ہے اور کتابت بھی کی جاسکتی ہے۔ اسی لئے تو صحابہ رسول کے مصاحف، کتابت میں ایک دوسرے سے مختلف تھے مگر جب انہوں نے خلافت عثمانی میں ایک ہی مصحف پر اتفاق کرلیا تو یہ خلفاء راشدین کی سنت قرار پائی اور حدیث رسول میں ہے کہ(جب سنت رسول نہ ہو تو) ان کی سنت کی اتباع واجب ہے۔
توقیفی ترتیب میں مکی ومدنی سورتیں باہم جڑکر سات گروپ میں منقسم ہوگئی ہیں۔ بعض علماء کے ہاں یہی سبع من المثانی کا مفہوم ہے ان میں ہر گروپ مکی دور سے شروع ہو کر مدنی دور پر اختتام پذیر ہوتا ہے اس طرح کار رسالت کو سمجھنے میں بڑی آسانی ہوتی ہے۔ جس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر گروپ میں سورتوں کی ترتیب نزولی ہے یعنی ہر گروپ کے اندر سورتیں اسی ترتیب سے رکھی گئی ہیں جس ترتیب سے وہ نازل ہوئی تھیں۔
علوم قرآن
علوم قرآن
تعریف علوم قرآن : قرآن مجید میں واقع مختلف مباحث، مثلاً:نزول قرآن، وحی کا بیان، جمع اور تدوین، محکم ومتشابہ آیات، مکی و مدنی سورتیں، اسباب نزول، قرآن کے الفاظ کی تفسیروترجمہ، ان کی اغراض و خصوصیات ،وغیرہ سے متعلق تفصیلی گفتگو کو’’علوم القرآن‘‘ کہتے ہیں۔ ان کا مقصد قرآن مجید میں بیان کردہ ایمانیات، عقائد اور اعمال کی تمام جزئیات، کلیات اور عقائد کو واضح کرنا اور سمجھنا ہے۔
امام زرکشیؒ نے اپنی معروف کتاب البرھان میں علوم القرآن کے تینتالیس موضوعات شمار کرکے ان پر تفصیلی گفتگو چار ضخیم اجزاء میں کردی ہے۔علامہ جلال الدین عبد الرحمن سیوطیؒ نے ان کی تعداد اسی (۸۰)شمار کی ہے اور ان پر تفصیلی گفتگو کی ہے جبکہکلام اللہ میں اور بھی بے شمار علوم ہیں جن کی تعداد تین سو سے زائد بتائی جاتی ہے۔ ان علوم میں سے چند کے نام یہ ہیں:
۱۔ علم تجوید
۲۔ علم محکم ومتشابہ
۳۔ علم قراء ت
۴۔ علم أسباب نزول
۵۔ علم رسم قرآنی
۶۔ علم إعجاز قرآن
۷۔ علم إعراب قرآن
۸۔ علم ناسخ ومنسوخ
۹۔ علم مکی ومدنی
۱۰۔ علم غریب قرآن
۱۱۔ علم تفسیر
فوائد علوم قرآن
فوائد علوم قرآن: علوم القرآن کے بے شمار فوائد ہیں۔ مثلاً:
رسم قرآن کا علم بتاتا ہے کہ قرآن کی تحریر بتدریج اپنے کمال تک کن کن مراحل سے ہوکر پہنچی۔اس کی تشکیل کب او رکیسے ہوئی؟ اسی طرح احزاب، منازل ، اجزاء اور ہر سورۃ کے نام وغیرہ کب ، کیوں او رکیسے متعین ہوئے ۔ مصحف قرآنی کے مختلف خطوط کا تعین اور پھر کتابت جیسی دلچسپ باتیں یہی علم کرتا ہے۔
علم تجوید ، قرآن کریم کے طالب علم کو حروف کے صحیح مخارج ونطق کی معرفت دیتاہے۔ اس کی مشق تلاوت قرآن یا سماع قرآن کی لذت کو دوبالا کردیتی ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ تجوید کے بغیرقرآن کی تلاوت غیر مؤثر رہتی ہے۔
علم قرأت پر دسترس اسی تلاوت کا خوگر بناتی ہے جوہادی برحق نے ترتیل سے کی تھی۔اور جس کے مختلف طرز ادا تھے۔
اسبابِ نزول آیات و سور کے پس منظر سے آگاہ کرتا اور ان کی تشریح و توضیح میں بھرپور معاونت کرتا ہے۔
ناسخ و منسوخ کا علم، قرآنی آیات میںبیان کردہ مخصوص حکم کی پہلی او رآخری نزولی ترتیب کا تعین کرتا ہے۔ وہ ذات اپنی حکیمانہ تدبیر سے جو حکم چاہے ، ابتداء ً نازل کر دے اور بعد میں اس حکم کو اٹھالے اور اس کی جگہ زیادہ بہتر حکم نازل کر دے یا ویسا ہی حکم لاکر ہمارے ایمان کا امتحان لے۔عقل انسانی کو شاہد بناتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی آیات و الفاظ میں سے جتنا چاہے باقی رکھے اور جو چاہے محو کر دے۔
مکی و مدنی آیات وسور کے علم سے اس تقسیم کی حکمتیں اور فوائد ظاہر ہوتے ہیں، قرآن مجید کیوں تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا؟ عقائد اوراحکام کے نزول میں تدریجی پہلو کیوں پیش نظر رکھے گئے؟ یہ علم روایات مختلفہ کو چھانٹنے اور ان کے بارے میں بہتر فیصلہ کرنے میں بڑا ممدو معاون ثابت ہوتا ہے۔ خاص طور پر دعوت اسلامی کے مراحل کو سمجھنے میں، تاکہ ہر علاقے او رہر زمانے میں دعوت دین کے دوران داعی حضرات کو ان سے استفادہ کا موقع ملے۔یہ علم سیرت نبوی سے بھی آگاہ کرتا ہے۔نیز آیات اور الفاظ کے معنی و مفہوم میںامکانی تحریف کو یہی علم ہی کھنگالتا ہے۔
قرآن فہمی کے لئے عربی زبان کا علم بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔وہ عربی زبان جو قرآن فہمی میں مدد دے۔ اس کی مددگار قرآن مجید واحادیث کی لغات، گرامرصرف ونحو اور احادیث نبویہ ہیں ۔
تفسیر قرآن کے لئے یہ علوم کنجی کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ علوم طالب ِ علم کو قرآن کے افہام وتفہیم میںاعتماد دیتے اور درست منہج عطا کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف ان سے عملًا مستفید ہوتا ہے بلکہ تعلیم وتعلّم کا جذبہ بھی بیدار کرتا ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ میری ہمت وقوت میں اضافہ کا سبب نہ صرف یہ پاک کلام ہے بلکہ فہم وعقل کو جلا بخشنے والی یہ مقدس کتاب ہے۔ اسی معنی میں قرآن کو آسان کتاب کہا گیا ہے۔ طالب علم کو یہی علوم ، قرآن پر کئے گئے اعتراضات، تحریفات اور شبہات کا مدلل جواب دینے کی صلاحیت عطا کرتے ہیں۔ قرآنِ مجید کے اسرار و رموز، عقائد و احکام کا علم اور ان کی حکمتیں انہی علوم کی مرہون منت ہیں۔