قرآن مجید کو تجوید کے ساتھ پڑھنا کیوں ضروری ہے؟

تجوید کے متعلق سوچتے ہی پہلا سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ قرآن مجید کو تجوید کے ساتھ پڑھنا کیوں ضروری ہے؟۔ ہر زبان کو جب ہی صحیح بولنا کہا جائے گا جب وہ اہل زبان کے طریقے کے مطابق ہو۔ قرآن مجید چونکہ عربی میں ہے اس لئے عربوں کے طریقہ پر پڑھا جانا ضروری ہے، اگر ان کے طریقہ سے حروف ادا نہ ہوئے تو قرآن کی عربیت باقی نہ رہے گی یا پھر اللہ تعالی کی مراد کے خلاف مطلب پیدا ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر قل کا مطلب کہو اگر اس کی جگہ کل پڑھا جائے تو اس کا مطلب کھاؤ اس طرح قلب کا مطلب دل، اور کلب کا مطلب کتا ہوتا ہے۔ نصر کا مطلب مدد اور نسر کا مطلب گِدھ ہوتا ہے۔ خَلَقَ کا مطلب پیدا کیا اور حَلَقَ کا مطلب سر مونڈا ہے۔۔ ان سب الفاظ سے ایک بات واضح ہوگئی کہ حرف بگڑنے سے معنی بھی بگڑ جاتے ہیں۔
قرآن پاک میں اللہ پاک نے فرمایا ورتل القرآن ترتیلا۔۔ یعنی قرآن کو صاف صاف پڑھو۔ صاف پڑھنے سے مراد یہی ہے کہ ہر حرف، مخرج و صفات سے ادا ہو ، ورنہ آواز ہرگز صاف نہ کہلائے گی بلکہ غیر عربی ہوگی۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا ”ورتلنٰہ ترتیلا“ یعنی کہ ہم نے قرآن کو ترتیل کے ساتھ ہی نازل کیا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالی تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم میں سے ہر ایک ایسے پڑھے ، جیسے اسے پڑھایا گیا ہے (الحاکم، وقال صحیح الاسناد وحسنہ الالبانی)۔۔
اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بے شک اللہ تعالی یہ پسند کرتے ہیں کہ قرآن مجید کو اس طرح پڑھا جائے، جس طرح نازل کیا گیا۔ (النشر)۔ ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات کے متعلق فرماتی ہیں کہ ”آپ سورۃ کو اس قدر خوب ٹھہر ٹھہر کر ترتیل سے پڑھتے کہ بڑی سے بڑی ہو جاتی“۔ ( السنن الکبری)۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع روایت میں مروی ہے کہ آپ (ابن مسعود رضی اللہ عنہ) ایک شخص کو قرآن پڑھا رہے تھے۔ اس نے انما الصدقات للفقراء کو بغیر مد کے پڑھا۔ تو اپ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس طرح نہیں پڑھایا۔ اس شخص نے دریافت کیا کہ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کس طرح پڑھایا؟ تو آپ نے یہی آیت پڑھی اور للفقرآء پر مد کیا (رواہ الطبرانی فی مجمعہ الکبیر)۔ پس جب ایک شخص کو مد چھوڑنے پر حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرما رہے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسل کا اس طرح پڑھایا ہوا نہیں ہے تو جو لوگ حروف کی بھی پرواہ نہیں کرتے اور ان کی تصحیح کو ایک ضرورت سے زائد کام خیال کرتے ہیں، ان کے لئے غور کا مقام ہے کہ ایسا پڑھنا بھلا کس طرح سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑھائے ہوئے جیسا ہو سکتا ہے
ہر حرف کو اس کے مخرج سے صفات سمیت ادا کیا جائے تاکہ ہر حرف کی آواز دوسرے سے بالکل جُدا رہے اور” طا ” کی جگہ” تا” اور” ضاد” کی جگہ “ظا” ادا نہ ہواور اسی طرح دیگر حروف کے مخارج کی صحیح ادائگی کا اہتمام کریں – اگر آپ لوگوں نے تجوید کے ساتھ قرآنِ کریم نہیں پڑھا تو اب بھی دیر نہیں ہوئی اپنے آس پاس کے علاقے میں ان لوگوں کو تلاش کریں جنہوں نے تجوید کے ساتھ قرآنِ کریم پڑھا ہے ان سے تجوید سیکھیں۔