رموز اوقاف قرآن مجید

 ہر زبان کے اہل زباں جب گفتگو کرتے ہیں تو کہیں ٹھہر جاتے ہیں ، کہیں نہیں ٹھہرتے۔ کہیں کم ٹھہرتے ہیں، کہیں زیادہ اور اس ٹھہرنے اور نہ ٹھہرنے کو بات کے صحیح بیان کرنے اور اس کا صحیح مطلب سمجھنے میں بہت دخل ہے۔ قرآن مجید کی عبارت بھی گفتگو کے انداز میں واقع ہوئی ہے۔ اسی لئے اہل علم نے اس کے ٹھہرنے نہ ٹھہرنے کی علامتیں مقرر کر دی ہیں، جن کو رموز اوقاف قرآن مجید کہتے ہیں۔ ضروری ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے ان رموز کو ملحوظ رکھیں اور وہ یہ ہیں:

﴿﴾                         جہاں بات پوری ہو جاتی ہے، وہاں چھوٹا سا دائرہ لگا دیتے ہیں۔ یہ حقیت میں گول (ت) جو بصورت (ۃ)لکھی جاتی ہے۔ اور یہ وقف                             تام کی علامت ہے یعنی اس پر ٹھہرنا چاہیئے، اب (ۃ) تو نہیں لکھی جاتی۔ چھوٹا سا دائرہ ڈال دیا جاتا ہے۔ اسکو آیت کہتے ہیں۔ دائرہ پر                             اگر کوئی اورعلامت نہ ہو تو رک جائیں ورنہ علامت کے مطابق عمل کریں۔

۵                             یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس موقع پر غیر کوفیین کے نزدیک آیت ہے۔ وقف کریں تو اعادہ          کی ضرورت نہیں۔ اس کا حکم                         بھی وہی ہے جو دائرہ کا ہے۔

م                             وقف مطلق کی علامت ہے۔ اس پر ٹھہرنا چاہیئے۔ یہ علامت وہاں ہوتی ہے جہاں مطلب تمام نہیں ہوتا اور بات کہنے والا ابھی کچھ اور                          کہنا چاہتا ہے۔

ج                            وقف جائز کی علامت ہے۔ یہاں ٹھہرنا بہتر اور نہ ٹھہرنا جائز ہے۔

ز                              علامت وقف مجوّز کی ہے۔ یہاں نہ ٹھہرنا بہتر ہے۔

ص                           علامت وقف مرخص کی ہے۔ یہاں ملا کر پڑنا چاہیئے لیکن اگر کوئی تھک کر ٹھہر جائے تو         رخصت ہے۔معلوم رہے کہ (ص) پر م                       لا کر پڑھنا (ز) کی نسبت زیادہ ترجیح رکھتا ہے۔

صلے                          الوصل اولیٰ کا اختصار ہے۔ یہاں ملا کر پڑھنا بہتر ہے۔

ق                            قبل علیہ الوقف کا خلاصہ ہے۔ یہاں ٹھہرنا نہیں چاہیئے۔

صل                         قَد یو صل کا مخفف ہے۔ یہاں ٹھہرا بھی جاتا ہے اور کبھی نہیں۔ بوقت ضرورت وقف کر سکتے ہیں۔

قف                         یہ لفظ قِف ہے ۔ جس کے معنی ہیں ٹھہر جاؤ۔ اور یہ علامت وہاں استعمال کی جاتی ہے، جہاں پڑھنے والے کے ملا کر پڑھنے کا احتمال ہو۔

سکتۃ                          سکتہ کی علامت ہے۔ یہاں کسی قدر ٹھہرنا چاہیئے مگر سانس نہ ٹوٹنے پائے۔

وقفۃ                          لمبے سکتہ کہ علامت ہے۔ یہاں سکتہ کی نسبت زیادہ ٹھہرنا چاہیئے لیکن سانس نہ توڑیں۔ سکتہ اوروقفہ میں یہ فرق ہے کہ سکتہ میں کم                            ٹھہرنا ہوتا ہے، وقفہ میں زیادہ۔

لا                              لا کے معنی نہیں کے ہیں۔ یہ علامت کہیں آیت کے اوپر استعمال کی جاتی ہے اور کہیں عبارت کے اندر۔ عبارت کے اندر ہو تو ہر گز                             نہیں ٹھہرنا چاہیئے۔ آیت کے اوپر ہو تو اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک ٹھہرنا چاہیئے بعض کے نزدیک نہیں ٹھہرنا چاہیئے لیکن ٹھہرا                             جائے یا نہ ٹھہرا جائے اس سے مطلب میں خلل واقع نہیں ہوتا۔

ک                           کذلک کا مخفف ہے، اس سے مراد ہے کہ جو رمز اس سے پہلی آیت میں آ چکی ہے، اس کا حکم اس پر بھی ہے۔

ۛۛ                         یہ تین نقاط والے دو وقف قریب قریب آتے ہیں۔ ان کو معانقہ کہتے ہیں۔ کبھی اس کو مختصر کر کے (مع) بھی لکھ دیتے ہیں۔ اس کا                             مطلب یہ ہے کہ دونوں وقف گویا معانقہ کر رہے ہیں۔ ان کا حکم       یہ ہے کہ ان میں سے ایک پر ٹھہرنا چاہیئے دوسرے پر نہیں۔                            ہاں وقف کرنے میں رموز کی قوت اور ضعف کو ملحوظ رکھنا چاہیئے۔